Breaking

Saturday, 17 February 2018

ماچھیوال ضلع اور تحصیل جھنگ کا قصبہ، علاقہ کچھی میں خوشاب مظفر گڑھ روڈ پر واقع ہے۔ ماضی قدیم میں یہ ایک عظیم



ماچھیوال

ضلع اور تحصیل جھنگ کا قصبہ، علاقہ کچھی میں خوشاب مظفر گڑھ روڈ پر واقع ہے۔ ماضی قدیم میں یہ ایک عظیم الشان شہر تھا۔ اس کے دامن میں لوہ کوٹ کا وسیع و عریض قلعہ تھا، جو اب برباد ہو کر ٹیلے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ تاریخ اروڑہ ہنس کے مطابق لوہ کوٹ کو رام چندر کے بیٹے لُونے بسایا تھا اور صدیوں تک یہاں آریاؤں کی حکومت رہی۔ ایک زمانہ میں بدھ مت کا مرکز رہا اور ماچھیوال کو دریائی بندرگاہ کی حیثیت حاصل رہی۔ کشمیر کا سامان تجارت اور سندھ کا مال اسی شہر میں اُترتا تھا اور پھر خشکی کے راستے پہاڑی و صحرائی شہروں میں اُونٹوں کے ذریعہ پہنچا دیا جاتا تھا۔ خوشاب ملتان روڈ آباد شاہراہ تھی۔ اس کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے قلعے، چوکیاں سرائیں موجود تھیں۔ آج بھی سرائے کرشنا اور سرائے بھریڑی کے نشانات موجود ہیں۔ آموں اور کھجوروں کے وسیع باغات تھے۔ علاقہ شاداب تھا اور شہرکی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قلعہ کے تین اطراف قریباً پانچ کلومیٹر تک کشادہ میدان تھا، لیکن مختلف زمانوں میں یہ شہر اُجڑتا چلا گیا۔ قلعہ لوہ کوٹ تباہ ہونے کے بعد اس شہر کی رونق اور تجارت ختم ہو گئی،جس زمانہ میں محمود غزنوی نے اس علاقہ پر حملہ کیا تھا، یہ شہر راجہ جے پال کے قبضہ میں تھا۔ محمود غزنوی کے حملوں میں بھی اس شہر کو نقصان پہنچا۔ جب مغلوں کا ابتدائی دَور شروع ہوا تو بھیرہ کے حاکم ماچھی خان نے اس شہر کو دوبارہ بسایا اور شہر اسی کے نام سے بعد میں ماچھیوال مشہور ہوا۔ اس شہر میں ایک بزرگ سخی سلطان کا مزار موجود ہے، جس پر کم و بیش دو گز لمبے اور ایک گز چوڑے پتھروں کی دیوار چُنی ہوئی ہے۔ یہ پتھر برباد شدہ قلعہ لوہ کوٹ کا ورثہ ہیں۔ ماچھی خان کے عہد سے لے کر ۱۸۵۰ء تک ماچھیوال کا شہر اپنی آب و تاب میں مشہور تھا، مگر انگریزی دَور میں شہر کی تجارت بند ہو گئی۔قدیم عمارتیں فوجی پڑاؤ کے لیے مخصوص کر لی گئیں اور جہلم کی طغیانی نے شہر کو مسلسل برباد کیا۔ ماچھیوال کو تیسری مرتبہ بسایا گیا ہے۔ ۱۹۲۴ء میں یہاں اراضی کا بندوبست ہوا اور ایک سرکاری بنگلہ بنایا گیا ۔یہاں مدفون بزرگ سلطان شہید کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ سیاحت کرتے ہوئے ماچھیوال پہنچے تھے اور ان کے ساتھ دیگر دو بھائی بھی تھے۔ تینوں صاحبِ کرامت بزرگ تھے۔ سلطان شہید یہیں ٹھہر گئے۔ باقی دو بھائی میانوالی کی طرف چلے گئے۔ آپ ڈاکوؤں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ ان کے مزار پر ہر سال پہلی اور تین مگھر کو میلہ لگتا ہے۔ یہ میلہ لوڑی کے نام سے مشہور ہے۔ حکومت نے ز ائرین کی سہولت کے لیے ایک کنواں وقف کیا تھا ،جو اب بھی موجود ہے۔

(کتاب ’’نگر نگر پنجاب:شہروں اور قصبات کا جغرافیائی، تاریخی، ثقافتی اور ادبی انسائیکلوپیڈیا‘‘ سے مقتبس)

No comments:

Post a Comment