واصو:
ضلع جھنگ کا قصبہ۔ جھنگ بھکر روڈ پر اٹھارہ ہزاری سے دو میل دور واقع ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ قدیم عہد میں علمی اعتبار سے بہت مشہور تھا کیونکہ یہاں ایک زمانہ قبل سنسکرت کی بہت بڑی درسگاہ تھی اور آریائوں نے اس درسگاہ کے اردگرد مضبوط قلعے اور فوجی چوکیاں بنائی ہوئی تھیں، جن کے آثار قدیمہ کے نشانات اور علامتیں اب بھی نظر آتی ہیں۔ بعد میں یہ تمام علاقہ اُجڑ گیا۔ موجودہ قصبہ کی بنیاد چیلا خاندان کے بزرگ واصل حق نے قریباً1010ھ میں رکھی اور یہاں دینی مدرسہ قائم کیا، جو بعد میں ان کی اولاد چلاتی رہی۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا گزر بھی ایک مرتبہ یہاں سے ہوا تھا۔ کسی زمانہ میں یہ اہم تجارتی شہر تھا ،مگر اب اس کی وہ حیثیت باقی نہیں رہی۔ یہاں طلبا و طالبات کے ہائی سکول اور ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔سکھ عہد سے تھوڑا عرصہ قبل واصو کے چیلہ خاندان میں مولوی درویش محمد ہوئے ہیں۔ وہ عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ ضلع جھنگ کے قدیم علمی خاندانوں میں ان کا خاندان سرفہرست شمار ہوتا تھا۔ مولوی درویش محمد کی ایک کتاب ’’احسن المقال‘‘ بہت مشہور ہے، جو جھنگ کے قدیم سیال خاندانوں کی تاریخ کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی خاندان کے مولوی نور محمد چیلہ نے ’’احسن المقال‘‘ کا اُردو ترجمہ کیا اور بعض تراجم کے ساتھ ’’تاریخ ِجھنگ سیال‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔ادیب اور شاعر سکندر خان حامی کا تعلق بھی واصو قصبہ سے تھا۔
ضلع جھنگ کا قصبہ۔ جھنگ بھکر روڈ پر اٹھارہ ہزاری سے دو میل دور واقع ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ قدیم عہد میں علمی اعتبار سے بہت مشہور تھا کیونکہ یہاں ایک زمانہ قبل سنسکرت کی بہت بڑی درسگاہ تھی اور آریائوں نے اس درسگاہ کے اردگرد مضبوط قلعے اور فوجی چوکیاں بنائی ہوئی تھیں، جن کے آثار قدیمہ کے نشانات اور علامتیں اب بھی نظر آتی ہیں۔ بعد میں یہ تمام علاقہ اُجڑ گیا۔ موجودہ قصبہ کی بنیاد چیلا خاندان کے بزرگ واصل حق نے قریباً1010ھ میں رکھی اور یہاں دینی مدرسہ قائم کیا، جو بعد میں ان کی اولاد چلاتی رہی۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا گزر بھی ایک مرتبہ یہاں سے ہوا تھا۔ کسی زمانہ میں یہ اہم تجارتی شہر تھا ،مگر اب اس کی وہ حیثیت باقی نہیں رہی۔ یہاں طلبا و طالبات کے ہائی سکول اور ہسپتال وغیرہ موجود ہیں۔سکھ عہد سے تھوڑا عرصہ قبل واصو کے چیلہ خاندان میں مولوی درویش محمد ہوئے ہیں۔ وہ عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ ضلع جھنگ کے قدیم علمی خاندانوں میں ان کا خاندان سرفہرست شمار ہوتا تھا۔ مولوی درویش محمد کی ایک کتاب ’’احسن المقال‘‘ بہت مشہور ہے، جو جھنگ کے قدیم سیال خاندانوں کی تاریخ کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی خاندان کے مولوی نور محمد چیلہ نے ’’احسن المقال‘‘ کا اُردو ترجمہ کیا اور بعض تراجم کے ساتھ ’’تاریخ ِجھنگ سیال‘‘ کے نام سے کتاب شائع کی۔ادیب اور شاعر سکندر خان حامی کا تعلق بھی واصو قصبہ سے تھا۔
No comments:
Post a Comment