Breaking

Wednesday, 14 February 2018

چیف جسٹس نے سچ کہا تھا شریفوں کے پیچھے کوئی اور نہیں انکے اپنے پڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نوازشریف



چیف جسٹس نے سچ کہا تھا شریفوں کے پیچھے کوئی اور نہیں انکے اپنے پڑے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نوازشریف کے حواریوں میں مریم نواز کا سب سے بڑا مخالف کون اور کیوں ہے ؟ دنگ کر ڈالنے والی خبر

لاہور (ویب ڈیسک) اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نون کے سربراہ محمد نوازشریف کی صاحبزادی مریم نوازشریف کی پارٹی قیادت صرف میرے کالم کا مسئلہ ہے تو آپ غلطی پرہیں۔ یہ اس وقت ہماری سیاست کا بہت بڑا سوال ہے جس کے جواب میں آنے والے دنوں میں ملک کے ووٹروں کازیادہ اعتماد رکھنے والی جماعت کی حکمت عملی بھی چھپی ہوئی ہے۔نامور کالم نگار نجم ولی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اس سوال پر میڈیا میں بحث جاری ہے جہاں مخالف سیاسی رہنماوں کے بیانات آرہے ہیں

اور نواز شریف کے سب سے پرانے ساتھی ہونے کے دعوے دار بھی اس پرغم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر آپ ایک اصولی موقف کے ساتھ جانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت کوئی بادشاہت نہیں ہوتی کہ اس میں ایک بادشاہ اپنا تاج اتارے اور اپنی اولاد کے سر پر رکھ دے تو بحث یہاں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ آپ کو یہ تحریر اس سے آگے پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کا موقف درست ہے اور آپ اب اپنی مثالیت پسندی کی رضائی اوڑھ کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔ سیاست میں باتیں اتنی سیدھی سادی ، مثالی اور کتابی نہیں ہوتیں ۔ اس وقت مریم نوازشریف کی قیادت پر سب سے بڑا اعتراض جناب نثار علی خان کا ہے، وہ کہتے ہیں کہ وہ کسی جونئیر کو سر یا میڈم نہیں کہہ سکتے۔ ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ میاں نوازشریف کے بعد پارٹی میں خود کو سب سے اہم سمجھتے ہیں ۔ وہ کہتے نہیں مگر سمجھتے ضرورہیں کہ میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد پارٹی قیادت اور وزارت عظمیٰ پر ان کا حق بنتا ہے اور ان کی پریس کانفرنسوں میں ان کایہ احساس محرومی چیخ چیخ کر بول رہا ہے۔

چودھری نثار علی خان کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہ آج تک جس پارٹی میں سیاست کرتے اور عہدے انجوائے کرتے آئے ہیں وہ میاں محمد نواز شریف کی ذاتی جماعت ہے۔ ہماری سیاست میں ابھی تک نظریات سے کہیں زیادہ شخصیات اہم ہیں جبکہ پیروکاروں کے نظرئیے قائدین کے مفادات کے ساتھ ہی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ المیہ صرف مسلم لیگ نون کے ساتھ ہی تو نہیں ہے کہ اگر اس کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے تو وہ کارکن بھی ریاستی اداروں کی عظمت کے گن گاتے اور ان کی سیاست میں مداخلت کو عین قومی مفاد قرار دیتے ہیں مگر دوسری طرف جب قیادت کے مفادات متاثر ہوتے ہیں تووہ اپنے لیڈر کے ساتھ ہی لائن کی دوسری طرف جا کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کی سب سے بدترین مثال ابھی حال ہی میں پیپلزپارٹی نے جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں پیش کی ہے جب انہوں نے ریاستی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا تو قمرالزماں کائرہ سمیت سب اس کی توجیہات اور تشریحات میں لگ گئے اور آج کل بلوچستان کی حکومت جیب میں ڈالنے کے بعد انہی اداروں کی عظمت کے گن گاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں بدترین سے بھی بری حالت تیسری مقبول ترین جماعت تحریک انصاف کی ہے جس کے کارکن اپنے لیڈرکے ہر نئے بیان کے ساتھ اپنی نظریاتی الائنمنٹ کرتے ہیں کہ وہ جدت پسند بن کے ایک نیا پاکستان چاہتے ہیں یا وہ طالبان کے ساتھ ہیں۔

گمان ہے کہ ماضی میں چودھری نثار علی خان کے دئیے ہوئے کچھ مشورے درست تھے جن میں ریاستی اداروں کے سامنے سرنڈر کرنے اور پاناما کیس میں سپریم کورٹ سے رجوع نہ کرنے کا مشورہ بھی شامل تھا۔ یقینی طور پر اگر ایوان وزیراعظم میں بیٹھے نوازشریف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ نہ کرتے تو ان کے مخالفین کے پاس انہیں عہدے سے ہٹانے کاکوئی آئینی ، قانونی اور سیاسی راستہ نہیں تھا مگر اٹھائیس جولائی کے بعد سے سیاست کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ میاں نواز شریف کے اقتدار کو بارہ اکتوبر ننانوے کے بعد کم شدت کا ہی سہی مگر ایک بڑا دھچکا لگایا جا چکا ہے اور اگر ایسے میں بھی چودھری نثار علی خان اپنے مشورے جاری رکھتے ہیں تو یہ پارٹی کے موجودہ بااثر نظریاتی دھڑے کے لئے قابل قبول نہیں ہو گا جو اپنے آپ کو نواز شریف کے ساتھ زخم خوردہ محسوس کر رہا ہے ۔ ایسے میں مریم نواز شریف ایک ایسی بیٹی کے طور پر سامنے آئی ہے جو اپنے باپ کی لڑائی لڑنے کے لئے خود کو پیش کر رہی ہے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک باپ اپنی بیٹی کی بجائے اپنے اس پرانے دوست کے ساتھ جائے گا جو طویل عرصے سے اس کی بجائے اسے ایوان وزیراعظم سے نکال دینے والوں کی ترجمانی کر رہا ہے۔

پیپلزپارٹی کے قائدین عمومی طور پر مریم کی قیادت پر تحریک انصاف والوں کی طرح سوال نہیں اٹھا رہے کیونکہ اس صورت میں انہیں بلاول بھٹو زرداری کی قیادت کا جواب بھی دینا پڑجاتا ہے اور یہاں ان کے پاس بغلیں جھانکنے اور آئیں بائیں شائیں کرنے کے سوا کچھ نہیں رہتا مگر دوسری طرف پی ٹی آئی کے چھیاسٹھ برس کے قائد بوجوہ اپنے بیٹوں کو سیاست میں نہیں لاسکتے یہاں اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اس معاملے کو پرسنل ہی رہنے دیا جائے مگر ایک بات ریکارڈ پر ہے کہ موروثیت کے حوالے سے اگر عمران خان اپنے ایک ساتھی جہانگیر ترین کی خاطر اپنا موقف بدل سکتے ہیں تو وہ یہ کام خود اپنے بیٹوں کے لئے کیوں نہیں کر سکتے۔ میاں محمد نواز شریف نے مظفر آباد کے جلسے میں ا پنے بعد مریم نواز کو تقریر کا موقع دے کر واضح پیغام دے دیا ہے کہ مستقبل کی قیادت مریم نواز شریف ہی ہے۔ جب حالات و واقعات کی شہادتوں کے مطابق یہ فیصلہ کم و بیش ہو چکا کہ پاکستان میں ووٹروں کا سب سے زیادہ اعتماد رکھنے والی جماعت کی اگلی قائد اور سربراہ مریم نواز ہی ہوں گی تو پھر یہ سوال منطقی ہوجاتا ہے کہ جولائی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعداگرمسلم لیگ نون اکثریت حاصل کرلیتی ہے تو پھر وزارت عظمی کا امیدوارکون ہو گا۔

یہ امر اہم ہے کہ مسلم لیگ نون کے سربراہ نواز شریف نے آن دی ریکارڈ ابھی تک اس امر کا اعلان نہیں کیا کہ ان کے وزارت عظمی کے امیدوار شہباز شریف ہوں گے اور جماعت کے کسی بھی ادارے سے اس فیصلے کی رسمی توثیق بھی حاصل نہیں کی گئی۔ شہباز شریف بہت سارے ان اداروں کے لئے قابل قبول ہو سکتے ہیں جن کے لئے اس وقت نواز شریف اور مریم نواز شریف نہیں ہیں۔ شہباز شریف کی سپریم کورٹ میں پیشی کے موقعے پر ہونے والے مکالمے کو بھی اسی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ، چیف جسٹس مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جو بھی اقتدار میں آئے وہ آپ کو وزیر اعظم بنانے کا سوچے۔ اگر آپ اس نوازشریف کو نااہل سمجھتے ہیں جس نے پاکستان کے مستقبل کے وزیراعظم کا فیصلہ کرنا ہے تو یہ آپ کی رائے ہیں۔ مریم نواز شریف کی مستقبل کی قیادت بارے بحث کو سمیٹتے ہوئے مجھے صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ اس برس جولائی، اگست میں شہبازشریف کے وزیراعظم بننے کا راستہ صرف ایک ہی شخصیت روک سکتی ہے اور اس کانام نواز شریف ہے۔ جولوگ پارٹی قیادت اور فیصلوں پر تلملا رہے ہیں عین ممکن ہے کہ انہیں مریم نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کو بھی برداشت کرنا پڑ جائے

No comments:

Post a Comment